Posts

عادات خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں

ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا، قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔ (عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں) بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا. چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا، اس نے کہا "نسلی نہیں ھے" بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،، اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے. مسئول کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟ اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے. بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا، مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا. اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،

حسین خاتمہ

سعودی عرب کے ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا ہے کہ تمہاری کمپنی کے آفس کے مین گیٹ کے سامنے فلاں شخص جو پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو ۔۔۔ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا ۔۔۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص اپنےعلاقے کی جامع مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے خواب سنایا ۔۔۔ امام مسجد نے کہا اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو ۔۔۔ اگلے روز اس شخص نے اپنی اس کمپنی کے ایک ملازم سے اس پھل فروش کا نمبر معلوم کرنے کو کہا ۔۔۔ بزنس مین نے فون پر اس پھل فروش سے رابطہ کیا اور کہا کہ  مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ پھل فروش زور سے ہنسا اور کہنے لگا ! کیا بات کرتے ہو بھائی؟؟ میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز ادا نہیں کی اور بعض اوقات شراب بھی پیتا ہوں ۔۔۔ تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!! بزنس مین اصرار کرنے لگا ۔۔۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی ! میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا ۔۔۔ خ

آخری خط

جہاز تیس ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز تھا۔ پُرسکون، آرام دہ فلائٹ؛ بزنس کلاس کا بااخلاق اسٹاف اور ہر طرف خاموشی۔ مدھم روشنیوں میں ہر کوئی سونے کےلیے اپنی سیٹوں کو ایڈجسٹ کر رہا تھا۔ عبداللہ کی آنکھوں پر نیند طاری تھی، وہ بھی نیم غنودگی میں تھا کہ اچانک جہاز کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ لائٹس جل اٹھیں اور ایمرجنسی سائرن کی آواز سے جہاز گونج اُٹھا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز کا ایک اِنجن فیل ہوگیا ہے اور دوسرے میں بھی کچھ خرابی معلوم ہوتی ہے۔ جہاز دس منٹ میں کریش لینڈنگ کرے گا۔ دعائیں مانگ لیجیے۔ مسافروں کی سانسیں اوپر کی اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئیں۔ کسی کو موت سے پہلے مر جانے کی عکس بندی کرنی ہو تو یہ بہترین موقع تھا۔ فرطِ جذبات اور غصّے سے آگے والی سیٹ کے بزنس مین صاحب چیخنے لگے۔ ’’کیا بےہودہ بات ہے، بکواس کرتے ہو، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں، میرے اتنے بزنس…‘‘ ایئرہوسٹس نے بات کاٹی، ’’جناب چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب میتوں میں بدل جائیں گے۔‘‘ ’’میں آپ لوگوں کےلیے ایک آخری کام کرسکتی ہوں،‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے اندر کاک پٹ میں گئی اور ایک چھوٹا سا کالا ڈبہ لے آئی

مـــوت کا وقت مقـــــرر

میرے ایک دوست کو ان کے والد مرحوم کے کاغذات میں ایک تحریر ملی، جس میں ایک واقعہ کا بیان تھا، اسے پڑھ کر مجھے یاد آیا کہ ہمارے علاقے میں اس واقعہ کا بہت چرچا ہوا تھا ...! " ہمارے گاؤں سے قریب ایک نہر کی کھدائی ہو رہی ہے، سیکڑوں مزدور دن رات مٹی کی کھدائی میں مصروف رہتے ہیں، ایک دن ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ... ہوا یوں کہ ایک دن ایک لڑکا چیخنے لگا : " سانپ، سانپ ... " مزدور دوڑے، مگر وہاں کچھ نہ تھا، جب اس لڑکے نے ایسا کئی بار کیا تو ٹھیکیدار نے سوچا کہ شاید یہ ناٹک کر رہا ہے، اسے بھوک لگ رہی ہے، یہ گھر جانا چاہتا ہے، اس کی حرکت سے کام کا بھی حرج ہو رہا ہے، چنانچہ اس نے لڑکے کو چھٹی دے کر گھر بھیج دیا اور دوسرے مزدور کام کرنے لگے، کچھ حصے کی کھدائی کے بعد مزدوروں کو ایک سوراخ نظر آیا، انھیں یقین ہو گیا کہ اس بل میں ضرور سانپ موجود ہے، تھوڑا کھودنے پر واقعی ایک سانپ نکلا، مزدوروں کے پاس وہاں پھاوڑا کے علاوہ کچھ نہ تھا، ایک مزدور نے پھاوڑا مارا اور سانپ کے دو ٹکڑے ہو گئے، ٹھیک اسی وقت ایک چیل آئی اور سانپ کے اگلے ٹکڑے کو لے اڑی ... وہ لڑکا خوشی خوشی اپنے گھر جا رہا

خوفِ خدا

امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔ بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، "تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے؟" ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، "مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں"۔ یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، "میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔!" ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ، "کیا اِس طریقے سے میری طلاق ہو چکی ہے؟" سب کا باری باری یہی کہنا تھا کہ، "ہاں، آپکی طلاق ہو چکی ہے، اور شریعت کی روشنی میں ملکہ عالیہ اب آپ کی زوجہ نہیں رہیں۔۔۔!"، لیکن اِس محفل میں ایک نوجوان مفتی بھی موجود تھے، وہ ایک طرف ہو کر بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ بادشاہ نے اُن سے بھی یہی سوال پوچھا تو انہوں

باصلاحیت علما کی قدر کیجیے پھر نتیجہ دیکھیے

سلام مسنون اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔۔مغرب کی اذان ہورہی تھی- اذان دینے والے کی آواز بہت دل نشیں تھی- نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم مسجد کی جانب بڑھنے لگے - مسجد میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا- مسجد  جمعہ کی نماز کا منظر پیش کررہی تھی ۔۔۔۔۔ نماز ادا کی تو امام صاحب کی قراءت نے سماں باندھ دیا، خود میں بھی رو دیا - کچھ ہی دیر میں، میں نے فیصلہ کر لیا کہ امام صاحب کو میں اپنی مسجد میں لے کر جاؤں گا ؛ کیونکہ جب امام اچھا ہو ، اس کی قراءت بھی اچھی ہو، تو مسجدیں آباد ہوتی ہیں - نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کیا، نمبر لیا- اسی دوران میری ملاقات مسجد کے صدر  فہیم صاحب سے ہوئی- میری پرانی شناسائی تھی-  میں نے اپنے ارادے سے انہیں آگاہ کیا تو وہ مسکرا پڑے - کہنے لگے: "آپ امام صاحب سے بات کر لیجیے" - مجھے کچھ حیرت ہوئی- انہوں نے میری بات  پر کسی قسم کا  ردعمل ظاہر نہیں کیا - میں نے  وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسی وقت امام صاحب کے پاس پہنچ گیا اور ان سے اپنے مقصد کی بات کی کہ میری بات سُن کر وہ  بھی مسکرا دیے - میں ابھی تک اس مسکرانے کی وجہ نہیں جان پا رہا تھا- میں نے امام ص